Phone:
+92-300-7517775Fax:
+92-333-7517775Email:
info@kotmithan.com
تحقیق و تحریر :۔ پرو فیسر ڈاکٹر شکیل پتافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترتیب و تکمیل خادم شہر فرید کمال فرید ملک
اس با ت کا علم تقریباً ہر شخص کو ہے کہ کو ٹ مٹھن کی بنیا د مٹھن نامی ایک شخص نے رکھی تھی ۔جتو ئی قوم سے تعلق رکھتا تھا اور سیت پور کے ایک قصبہ( یا رے والی )کا رہنے والا تھا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یا رے والی کا رہنے والا یہ شخص اتنی دور دراز کا سفر طے کر کے کو ٹمٹھن کی بنیا د کیسے رکھتا ہے جب کی ان دنوں ذرائع نقل و حمل کی اتنی قلت تھی کہ آدمی اپنے گھر سے نکلے ہو ئے بمشکل چند میلوں کا سفر طے کر پا تا تھا ۔ چنانچہ اس سوال کا حل تلاش کرنے کے لئے ہمیں تاریخ کے اوراق میں جھا نکنا پڑے گا ۔ اس کے علاوہ مٹھن خا ن کی قومیت کے با رے میں جو ابہام پایا جا تا ہے کہ وہ گو پانگ تھا یا جتو ئی ؟ اس معمہ کا حل بھی اس بحث کا حصہ ہے ۔آئیں تاریخ پر ایک نظر ڈالیں ۔
حضرت بہا ؤ لدین زکریا ؒ کی نسبت سے ملتان اور اس کے بیشتر نو احی علاقے سلسلہ سہرورویہ سے منسلک ہو گئے تھے ۔اوچ ،علی پو ر اور سیت پو ر کا خطہ بھی اس کے اثر سے خا لی نہیں تھا ۔مغل شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں سہروردیہسلسلہ کے پیرو کا ر سندھ تک پھیلے ہو ئے تھے ۔چنانچہ حضر ت خواجہ غلام فرید کو ریجہ ؒ کے خا ندان کے ایک بزرگ مخدوم محمد زکریا جو ان دنوں ٹھٹھہ (سندھ)میں قیام پذیر تھے وہاں سے ترک سکو نت کر کے منگلوٹ تحصیل لو دھراں میں آکر آبا د ہو گئے اس خا ندان کے افراد تقریباً تین پشتوں تک منگلوٹ میں آبا درہے۔ حضرت خواجہ فرید ؒ کا یہ خا ندان منگلو ٹ پہنچنے پر سلسلہ سہروردیہ سے منسلک ہو گیا ۔
حتیٰ کہ اسی خا نوادۂ کو ریجہ کے ایک بزرگ خو اجہ شریف محمد ؒ نے سلسلہ تصوف میں درجہ کمال حا صل کر لیا ۔ وہ تبلیغ دین کے داعی تھے اور انہوں نے منگلو ٹ کو چھو ڑ کر اشاعت دین کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ خا ندانِ فرید اٹھا رہویں صدی عیسوی کے آغا ز میں منگلو ٹ کو چھوڑ کر( یا رے والی) میں آکر آبا د ہو گیا ۔ادھر (یا رے والی)کا رئیس مٹھن خا ن بھی اسی سلسلہ تصوف سے متا ثر تھا اور کسی ایسی بر گز یدہ شخصیت کے انتظا ر میں تھا جو اسے روحا نی فیض سے مستفید کرے ۔ چنا نچہ حضرت خواجہ شریف محمد کو ریجہ ؒ جب اپنے خا ندان کے ہمراہ (یا رے والی)تشریف لائے تو مٹھن خا ن آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گیا ۔
بقول مولانا غلام جہانیاں ۔
مخدوم محمد شریف نے اپنی سکو نت منگلو ٹ شریف سے بمقام (یا رے والی )منتقل فرمائی ۔آپ کی نسبت سلسلہ سہروردیہ سے تھی ۔ بکثرت لو گ آپ کے سلسلہ ارادت میں داخل ہو ئے ۔
مٹھن خان جو اس علاقے کا رئیس تھا وہ بھی حضر ت محمد شریف کا مرید ہو گیا ۔ ( بحوالہ ہفت اقطاب ۔ ڈیرہ غا زی خان صفحہ نمبر ۶۴)
ان دنوں سیت پو ر پر نا ہڑ خا ندان کی حکو مت تھی ۔یہ حکو مت ایک طرف تو اوچ،ہڑنڈ اور کوہ سلیمان تک پھیلی ہو ئی تھی اور دوسری طرف اس حکو مت کی سرحد سرزمین کو ٹ مٹھن سے ہو تی ہو ئی بھاگسر ،روجہان ،کشمو راور کند ھ کو ٹ سے جا ملتی تھیں ۔ان علاقوں پر نا ہڑ خا ندان کی یہ حکو مت دہلی میں بہلول لو دھی (۱۴۴۵)کے تخت نشینی کے وقت سے قائم تھی ۔ ناہڑ خا ندان چونکہ ان علا قوں پر ۲۷نسلوں سے حکومت کرتا آرہا تھا ۔اس لئے ان علا قوں کے درمیان ایک بہت بڑی رابطہ سڑک قائم تھی جو دریا کے کنا رے کنارے سیت پو ر کو بھاگسر ،عمر کو ٹ روجہان،کشمور اور کندھ کو ٹ سے ملاتی تھی۔
حضرت خواجہ شریف محمد کو ریجہ ؒ جب منگلو ٹ کو خیر با د کہ کر (یا رے والی)پہنچے تو یہاں کے نا ہڑ فرما نبردار سلام خان خامس نے انکا بھرپو ر خیرمقدم کیا اور انہیں اپنے زیر حکو مت علاقوں میں تبلیغ کرنے کی درخواست کی ۔ چنانچہ ۱۷۱۳ ء کی ایک صبح کو حضرت خواجہ شریف محمد ؒ اپنے مرید خا ص مٹھن کو ہمراہ لے کر (یا رے والی)سے روانہ ہو ئے اور اس اہم گزرگاہ پر ہو لیئے جو دریا کے کنارے کنارے سیت پو ر کو کشمور اور دیگر شہروں سے ملاتی تھی ۔ مٹھن خا ن اپنے مرشد کی خدمت میں مصروف ان کے ہمراہ رہا۔دو افراد پر مشتمل یہ تبلیغی قافلہ جب سر زمیں کو ٹ مٹھن کے قریب پہنچا تو حضرت خواجہ شریف محمد کو یہ جگہ بہت پسند آئی ۔آپ نے مٹھن خا ن سے قیا م کی بابت اپنا ارادہ ظا ہر کیا ۔ مٹھن خا ن نے عرض کی ۔حضور! “کتنے روز ‘ فرمایا مستقل ۔ مٹھن خا ن نے حیرت سے پو چھا ۔ سرکار میں، حضرت نے یارے والی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تو خود وہاں رہے گا تیرا نام یہاں رہے گا ۔ مٹھن کی آنکھوں سے بے اختیا ر آنسو ٹپک پڑے تاہم اس نے مرشد کے فرمان کی تعمیل کی سیت پور سے کچھ افراد کو منگوا کر خواجہ شریف محمد کے لئے مدرسہ قائم کیا گیا ۔اور کچھ مکا نات تعمیر کر کے ان کے گرد ایک بڑا سا کو ٹ تعمیر کیا گیا جو اسی دن سے کو ٹ مٹھن کہلایا ۔ ۱۷۱۳ کا وہ دن اور آج کا دن یہ شہر کو ٹ مٹھن کے نام سے معروف ہے ۔ کچھ لو گ مٹھن خا ن کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ یہاں کا مقامی با شندہ تھا اور گو پانگ قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔ جہاں تک مٹھن خا ن کے مقا می ہو نے کا تعلق ہے تو یہ بات ہر اعتبا ر سے پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ یہاں کا رہنے والا نہیں بلک سیت پو ر کے مو ضع پا رے والی کا رہنے والا تھا ۔اس سلسلے میں ہنو رام کی کتا ب گل بہا ر مولا نا جہا نیاں کی ہفت اقطا ب ، منشی حکم چند کی تواریخ ڈیرہ غا زی خا ن اور مثل حقیقت محکمہ محال ۱۸۷۲ ء کو ملا خطہ کیا جا سکتا ہے ۔
رہا سوال یہ کہمٹھن خا ن کون تھا ؟ گو پانگ یا جتوئی تو اسضمن میں عرض یہ ہے کہ محکمہ محا ل کا بندوبستی ریکا رڈ مو جو د ہے جو ہر اعتبا ر سے ایک مکمل دستاویزی ثبو ت
سمجھا جا تاہے ۔اس میں مو ضع کو ٹ مٹھن پکہ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے مٹھن خا ن کو جتو ئی بلو چ لکھا گیا ہے ۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لئے اسے یہاں کا گو پانگ با شندہ مان بھی لیا جا ئے تو بھی اس کی حمایت میں کو ئی ثبو ت نہیں ملتا ۔
مذکو رہ بالا بندوبستی ریکا رڈ میں مختلف قوموں کے شجرے مو جو د ہیں ۔ان میں شجرہ نمبر ۹۷ میں کو ٹ مٹھن کی گو پانگ قوم کا شجرہ نسب درج ہے ۔اس شجرہ میں حمل نامی شخص کو اس مو ضع کی گو پا نگ قوم کا مو رث اعلیٰ ظا ہر کیا گیا ہے ۔ اور ۱۸۷۲ ء سے قبل سات پشتوں تک کے تقریباً ۶۷ افرادکا زکر کیا گیا ہے ان میں مٹھن نا م کا کو ئی شخص مو جو د نہیں ۔ بحوالہ مثل حقیقت مو ضع کو ٹ مٹھن پکہ ۱۸۷۲
البتہ محکمہ محال کے اس ریکا رڈ میں جتو ئی قوم کے شجرے میں مٹھن خا ن ولد کلاں خا ن کا ذکر مو جو د ہے ۔
کو ٹ مٹھن کی بنیا د قائم کر لینے کے بعد حضرت خواجہ شریف ؒ کی ہدایت پر مٹھن خا ن واپس یا رے والی چلا گیا تھا ۔وہاں اس ۷۱ برس کی عمر میں وفا ت پا ئی اور وہیں پر دفن ہو ا ۔ اس کی قبر یا رے والی کے اس قبرستان میں واقع ہے جہاں حضرت خواجہ شریف محمد کے والد خواجہ یعقوب محمد کو ریجہ آسودہ خا ک ہیں ۔ البتہ حضرت خوا جہ شریف محمد کو ٹ مٹھن میں دفن ہیں ۔
المختصر حضرت خو اجہ شریف محمد کے ایما پر مٹھن خان کے ہاتھون کو ٹ مٹھن کی بنیا دپڑی ۔ ۱۷۱۳ ء میں قائم ہو نے والا یہ شہر ۱۸۶۲ ء کے دریا ئی سیلا ب میں اس طرح غر قاب ہو اکہ آج صفحہ ہستی پر اس کا نشان تک مو جو د نہیں ۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال کے عرصہ پر محیط وہ شہر کیا تھا ؟ کہاں تھا اور کیسا تھا ؟اس سلسلے میں نادر معلو مات انشااللہ تعالیٰ بہت جلد آپکی اپنی اس سائیٹ پر مہیا کر دی جائیں گی۔
تحقیق ڈاکٹر پروفیسر شکیل پتافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مختلف قوموں کی آباد کا ری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترتیب وتکمیل ،خادم شہر فرید کمال فرید ملک
تاریخی حقائق سے یہ بات پہلے ہی سے ثا بت ہو چکی ہے کہ حضرت خوا جہ شریف محمدؒ ولدحضرت خواجہ یعقوب محمد قوم کوریجہ
اور مٹھن خان ولد کلا ن خا ن قوم جتوئی نے ۱۷۱۳ ء میں کو ٹ مٹھن کی بنیا د رکھی تھی ۔ اس طرح کو ریجہ اور جتو ئی اقوام کو ت مٹھن کی بانی قومیں قرار پا ئی ہیں ۔ حا لا نکہ اس سے پہلے بھی اس علا قے میں چند قو میں آبا د تھیں لیکن ان کی آباد ی سے کسی بستی یا گا ؤں کے تقا ضے پو رے نہیں ہو تے تھے اور وہ قومیں چھدری آبادی کی صورت میں اس پو رے علا قے میں پھیلی ہو ئی تھیں ۔ مگر جب مٹھن خا ن نے حضرت خو اجہ شریف محمدؒ کے لئے ایک مدرسہ اور قیا م گا ہ کی تعمیر مکمل کی تو اس علا قے میں پہلے سے آباد شدہ کچھ لو گ بھی اپنے عارضی مسکن ترک کر کے اس نئے ( کوٹ ) میںآباد ہو نے شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آبادی ایک بست اور قصبے کی صورت اختیا ر کرتی گئی اور اسے (کو ٹ مٹھن )کے نا م سے پکا را جا نے لگا
اگرچہ مختلف شہر اور قصبوں میں آبا د کا ری کا عمل ہر دور میں جا ری رہتا ہے۔مگر کو ٹ مٹھن میں آبا دکا ری کی تا ریخ میں تین مو اقع ایسے گزرے ہیں ۔ جن میں با ہر کے لو گو ں نے اس شہر میں آبا د ہو نے کے لئے اپنے اابائی تھکانو ں کو چھو ڑ کر قصداً یہاں کا رخ کیا ۔ اس سلسلے میں آباد کا ری کا پہلا موقع وہ تھا جب کو ٹ مٹھن کا قیا م عمل میں آیا چونکہ وہ شہر پہلے دن سے ہی ایک مستقل بستی کے قیا م کی صورت اختیا ر کر گیا اس لئے جو لو گ عارضی ٹھکانوں سے گریزاں تھے اور انہیں مستقل سکونت کے لئے کسی منا سب جگہ کی تلا ش تھی تو وہ ترکِ سکو نت اختیا ر کر کے بطور خا ص کو ٹ مٹھن میں آبا د ہو ئے ۔ان میں زیا دہ تر مقامی سطح پر پہلے سے مو جو د قوموں کے افراد تھے ۔
جوحضرت خواجہ شریف محمد ؒ اور مٹھن جتوئی کے آبا دہو نے کے ساتھ ہی کو ٹ مٹھن میں آبا د ہو گئے ۔کو ٹ مٹھن میں قومو ں کی آبا د کا ری کا دوسرا اہم مو قع حضرت خواجہ عا قل محمد ؒ کی ذات گرامی نے فرا ہم کیا جنکی پر کشش شخصیت نے لو گو ں کو اپنی طرف ما ئل کیا اور انکی روحا نیت سے کسبِ فیض حا صل کرنے کے لئے لو گ دور دراز سے ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو نے کی غرض لے کر کو ٹ مٹھن میں آبا د ہو ئے ۔آبا دکا ری کایہ سلسلہ ۱۷۷۰ ء سے شروع ہو کر ۱۸۱۰ ء تک پھیلا ہو اہے۔ تیسرا مو قع کو ٹ مٹھن کی تجا رتی اہمیت کا مرہون منت ہے جس نے مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے تجا رت پیشہ افراد کو کو ٹ مٹھن میں سکو نت حا صل کرنے پر مجبو ر کیا ۔ ان افراد میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور یہ آباد کا ری ۱۸۲۰ ء کے بعد شروع ہو ئی ۔
مختلف اوقات میں جو قومیں کو ٹ مٹھن قدیم میں آبا د ہو ئیں ۔انکی تفصیل درج ذیل ہے ۔
1886 کے سیلاب کے بعد کہاں آباد ہوئے | آبادی کا سال | سربراہ جو کوٹمٹھن قدیم میں آباد ہوئے | نام قوم | نمبرشمار |
کو ٹ مٹھن جدید | 1713 | خو اجہ شریف محمد | کو ریجہ قریشی | 1 |
1720 میں پیا رے والی چلے گئے | 1713 | مٹھن خا ن | جتو ئی | 2 |
کو ٹ مٹھن جدید | قبل از 1713 | مزار خان | دریشک | 3 |
کو ٹ مٹھن جدید | ایضاً | اصغر خان | گو پا نگ | 4 |
کو ٹ مٹھن پکہ | ایضاً | یقوب خان | ارائیں چوغطہ | 5 |
علا قہ روجھان | ایضاً | تھا ز خا ن | مزاری | 6 |
کو ٹلہ حسین | ایضاً | مو الی خا ن | کڈن | 7 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1750 | بندے شاہ | سید بخاری | 8 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1770 | قبول خا ں | ارائیں پٹھان | 9 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1770 | میاں برخوردار | قریشی | 10 |
بستی گو لہ | 1775 | نہال خا ن | گولہ | 11 |
بستی گنو کھانی | 1795 | سومرا خا ن | دریشک | 12 |
ایضاً | ایضاً | تھوجن خا ن | ایضاً | 13 |
ایضاً | ایضاً | پنیر خا ن | ایضاً | 14 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1898 | رحمت اللہ | اعون | 15 |
نا معلوم | 1800 | فتو خان | ارائیں بھوانہ | 16 |
ڈیرہ غا زی خا ن | 1805 | جلالہ | جٹ چوہان | 17 |
ایضاً | 1810 | محمد جمال | جٹ کھرل | 18 |
نامعلوم | ایضاً | خلیفہ عمر | بھایہ | 19 |
کوٹ مٹھن جدید | 1820 | محرم شاہ | سید قریشی ہاشمی | 20 |
کوٹ مٹھن جدید | 1825 | مقبول | لاکھا | 21 |
کوٹ مٹھن جدید | 1825 | غلام رسول | خو جہ | 22 |
کوٹ مٹھن جدید | 1835 | محمد | خوجہ عرف چاولہ | 23 |
کوٹ مٹھن جدید | 1850 | جندو ڈہ | خو جہ | 24 |
نا معلوم | 1825 | محمو د | جٹ ایری | 25 |
عمر کو ٹ تحصیل روجہان | 1825 | بکھو خا ن | جانگلہ | 26 |
بستی کلر | 1825 | بندو خان | جٹ کلر | 27 |
ایضاً | 1825 | ملو ک خا ن | جٹ کلر | 28 |
مو ضع کو ٹ مٹھن پکہ | 1825 | دریم | ما چھی | 29 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1830 | خلیفہ احمد یا ر | کھو کھر | 30 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1830 | محمد | کلا سرہ | 31 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1835 | خیر محمد | سیال | 32 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1835 | فتح محمد | لو ہار | 33 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1840 | بخشن | درکھان | 34 |
کو ٹ مٹھن جدید | 1850 | اللہ جوایا | گاذر | 35 |
مندرجہ بالا تفصیل میں مسلمانو ں کی جن قومقں کا ذکر کیا گیا ہے ۔وہ کو ٹ مٹھن کے قدیم شہر میں آبا د تھیں ۔ 1826 کے سیلاب میں وہ شہر غرق ہوا تو مسلمانوں کی ۳۵ میں سے ۱۷ قوموں کے لو گ کو ٹ مٹھن کے جدید شہر میں آبا د ہو ئے ۔البتہ کچھ قومقں کے لوگ جو زیا دہ تر زراعت پیشہ تھے انہوں نے کو ٹ مٹھن جدید میں رہنے کی بجا ئے اس کے گرد ونو اح میں اپنی الگ چھو ٹی چھو ےٹی بستیاں آبا د کرلیں ۔ ان بستیوں میں بستی گو لہ ،بستی میانی ،بستی گنو کھانی اور بستی کلر قابلِ ذکر ہیں۔
مسلمانوں کی ایسی قومیں جن کا ذکر مندرجہ با لا تفصیل میں نہیں آیا لیکن مو جو دہ کو ٹ مٹھن میں وہ قومیں آج بھی آبا د ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تعلق کو ٹ مٹھن قدیم سے نہیں تھا اوروہ قومین مو جو دہ شہر کے قیام کے بعد یہاں آبا د ہو ئیں تھیں ۔ جن کا ذکر آگے کو ٹ مٹھن جدید کے حصے میں آئے گا
اب ملا خطہ ہو کو ٹ مٹھن قدیم میں ہندو قوموں کی آبا د کا ری کی تفصیل ۔
کو ٹ مٹھن قدیم میں ہندوؤں کی اکثریت چو نکہ تجا رت پیشہ افراد پر مشتمل تھی اس لئے1826ء کے سیلاب میں تقریباًآدھے ہندو کو ٹ مٹھن کے مو جو دہ شہر میں آبا د ہو نے کی بجا ئے دوسرے مقا مات پر چلے گئے لیکن بعد میں اور بہت سارے ہندو دوسرے علا قوں سے نقل مکانی کر کے کو ٹ مٹھن کے مو جو دہ شہر میں آبا دہو گئے ۔ اس طرح کو ٹ مٹھن جدید کے قیام کے بعد اس نئے شہر میں ہندوؤں کی قومیں آبا د ہو ئیں انکے نام درج ذیل ہیں ۔
۱۔ لکھی ۲۔ کٹارہ ۳۔ مردلہ ۴۔ گا ڈی ۵۔ دھنگڑہ ۶۔ ڈیلہ ۷۔ اہوجہ ۸ ۔ لنڈ
1826 کے سیلا ب کے بعد کو ت مٹھن قدیم کی آبا دی کو جب مو جو دہ شہر میں بسایا جانے لگا تو ہندوؤں کی ۲۴ میں سے ۱۴ چھوٹی بڑی قومیں مختلف علا قوں سے نقل مکانی کر کے نئے شہر میں آبا دہو ئیں (جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے)اس طرح کو ٹ مٹھن جدید میں ہندوؤں کی کل ۲۲ قومیں آباد تھی جو قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کیطرف کوچ کر گئیں ۔
Copyright © 2012 Kot Mithan.com. All rights reserved. |